Next Election of Turkey
24 جون کو ترکی کی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن ہونے جارہا ھے
یہ اس لحاظ سے اہم ھے
کہ
اس الیکشن میں جیتنے والا 2023 تک حکمران رہے گا
یاد رہے
کہ
2023 ہی وہ سال ھے
جب ترکی اپنا صد سالہ جشن منارہا ہوگا
یہی وہ سال ہوگا
جب 100 سال پورے ہونے پر
" معاہدہ لوزین " ختم ہوجائے گا
اور
ترکی متحدہ یورپی افواج کی عائد کردہ سخت شرائط سے باہر نکل آئے گا
جس کی رو سے ترکی اپنی زمین میں تیل و گیس کیلئے کھدائی نہیں کرسکتا
اور
اپنی باسفورس جیسی اہم عالمی بحری تجارتی گزرگاہ پر کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں لے سکتا
معاہدہ لوزین ترک قوم پر مزید بے شمار پابندیاں بھی عائد کرتا ھے
جس کا بنیادی مقصد ترکی کو معاشی ترقی سے روکنا اور بے بس کردینا ھے
معاہدہ لوزین پر پھر کسی نشست میں بات کریں گے
سردست حالیہ ترکی الیکشن پر بات کرتے ہیں
ترکی پارلیمنٹ میں کل 600 ارکان ہوتے ہیں
جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں
ترکی کے قانون کی رو سے وہی پارٹی پارلیمنٹ میں داخل ہوسکتی ھے
جو کل انتخابی ووٹوں کا دس فیصد حاصل کرے
یوں
اگر کوئی رکن انفرادی طور سے جیت بھی جائے
تو اس کی جیت کا انحصار پارٹی کے کل ووٹوں کے دس فیصد ووٹ حاصل کرنے پر ہوتا ھے
حالیہ ترکی الیکشن اس لحاظ سے اہم ھے
کہ
اس میں بڑے ووٹر ٹرن آؤٹ کی توقع کی جارہی ھے
ترکی انتخابی تاریخ میں ووٹر ٹرن آؤٹ کو دیکھا جائے
تو سب سے زیادہ ووٹر 1988 میں باہر نکلا تھا
جس کا تناسب %86 فیصد ھے
یہ ترکی کی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ تھا
حالیہ انتخابات میں بھی بڑے ٹرن آؤٹ کی توقع کی جارہی ھے
کیونکہ
صدارتی نظام کے بعد یہ پہلا الیکشن ھے
جب ترک قوم اپنے صدر اور ارکان پارلیمنٹ کا ایک ہی دن انتخاب کرے گی
ہر شخص دو ووٹ ڈالے گا
صدر کیلئے ووٹ
اور
اپنے رکن پارلیمنٹ کیلئے ووٹ
پورا یورپ سانس روکے ہوئے اس الیکشن پر نظریں جمائے ہوئے ہیں
فرانس ، جرمنی جیسے بڑے ممالک سے لے کر آسٹریا جیسے چھوٹے سے ملک تک میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ ترکی کا الیکشن ھے
تمام تر مغربی میڈیا پر ترکی الیکشن چھایا نظر آتا ھے
انتخابات کا جائزہ لینے پر مامور تمام یورپی و امریکی تنظیمیں استنبول میں خیمے گاڑچکی ہیں
روز سروے کروائے جارہے ہیں
انتخابی رپورٹیں اپنے اپنے ممالک کو ارسال کی جارہی ہیں
میڈیائی تجزیوں سے رائے عامہ کا ذہن بنایا جارہا ھے
خوف سمیت ہربہ استعمال کیا جارہا ھے
واشنگٹن سے تل ابیب
اور
برلن سے ریاض تلک ایک بے چینی سی بے چینی ھے
یہ اردگان کا خوف ھے
یہ اسلام پسندوں کی پھر سے کامیابی کا خوف ھے
اب تو اردگان کے پاؤں میں پارلیمانی بیڑیاں بھی نہیں ہیں
کہ
صدارتی نظام آچکا ھے
جس میں اردگان ہی اختیارات کا مرجع ھے
اسلئے
دلچسپی میں مزید اضافہ ہوچکا ھے
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں
کسی بھی صدارتی امیدوار کو جیتنے کیلئے کل ووٹوں کا %50 حاصل کرنا ضروری ہے
ورنہ
صدارتی الیکشن کا دوسرا دور منعقد ہوگا
جو پہلے دو قریب ترین حریفوں کے درمیان ہوگا
سارا یورپ دوسرے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی پیشنگوئیاں کررہا ھے
کہ
اردگان کو دوسرے مرحلے پر چت کرنے کا منصوبہ بنایا جاچکا ھے
آئیے صدارتی الیکشن اور امیدواروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں
1۔۔۔
سب سے اہم صدارتی امیدوار
رجب طیب اردگان ہیں
جناب رجب طیب اردگان
ایم ایچ پی یعنی ملی حرکت پارٹی
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی
اور
حکمران " آق " پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں
یہ تین جماعتیں مل کر " اتحاد جمہور " کے نام سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں
اردگان کی وجہ شہرت
ان کا عوامی مزاج ،
ترکی کی مضبوط معاشی ترقی
اور
عظیم ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل کرنا ھے
اب تک اردگان نے تعمیراتی اعتبار سے بے شمار بڑے منصوبے مکمل کروائے ہیں
ان میں شہروں اور صوبوں کو ملانے والی چوبیس ہزار کلومیٹر رابطہ سڑکیں جدید اور دو طرفہ بنادی گئی ہیں
جس سے ٹریفک کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا ھے
اور
حادثات کی شرح بھی بہت حد تک کم ہوگئی ھے
مزید کئی ہزار کلومیٹر رابطہ سڑکوں کو کھلا کرنے اور دو طرفہ کرنے کا کام تیزی سے جاری ھے
اس کے ساتھ ساتھ
استنبول شہر میں یورپ اور ایشیاء کے دونوں حصوں کو باہم ملانے کیلئے نہ صرف نیا پل بنایا گیا ھے
بلکہ
باسفورس کے سمندر کے نیچے جدید سرنگ بھی بنائی گئی ھے
جس میں سے گاڑیاں اور ٹرک ہی نہیں
بلکہ
ریل کاریں بھی گزر کر آر پار جاسکتی ہیں
اسی طرح
استنبول کے شمال میں اگلے سو سال کی ضروریات کے مطابق ایک عظیم الشان ہوائی اڈہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ھے
حالیہ الیکشن میں اردگان نے اعلان کیا ھے
کہ
الیکشن میں کامیابی کے بعد
آبنائے فاسفورس پر بڑھتے ہوئے تجارتی جہازوں کے بوجھ کو بھی کم کیا جائے گا
اور
استنبول میں قرہ بورون کے ساحلی علاقے میں دو سمندروں کو ملانے کیلئے ایک نئی رابطہ نہر تعمیر کی جائے گی
جو سویز کینال اور پانامہ کینال کی طرز پر
بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے ملائے گی
یوں ایک نیا تجارتی راستہ وجود میں آئے گا
جو ترک بحری تجارت کو بلندیوں پر لے جائے گا
اس منصوبے پر بیسیوں ارب ڈالر لاگت آنے کا امکان ھے
اس سے آبنائے فاسفورس پر تجارتی جہازوں کا بوجھ کم ہوجائے گا
جو اس وقت اس حد تک بڑھ چکا ھے
کہ
بسا اوقات ایک جہاز کو گزرنے کیلئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ھے
اردگان نے جوہری طاقت حاصل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ھے
ترکی میں اسلام پسندی کی لہر کو دیکھا جائے
تو
1923 کے بعد ترکی میں اسلامائزیشن اپنے نکتہ عروج کو چھورہی ھے
آق پارٹی کی انتخابی مہم میں ایسی اسلامی علامات اور خلافت کے نعرے بکثرت نظر آرہے ہیں
سچ پوچھئے تو
یورپ اسی اسلامی لہر سے بہت پریشان ھے
ایک فرانسیسی ٹی وی کی رپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا
رپورٹر اردگان کی " آق پارٹی " کی انتخابی مہم میں کارکنان کے سٹال پر جاتا ھے
جہاں ٹوپیاں رکھی ہیں
وہ ایک ٹوپی اٹھا کر کیمرے کے سامنے کرتا ھے
جس پر یہ لکھا ھے
" ہم عظیم عثمانیوں کے پوتے ہیں "
فرانسیسی رپورٹر حیران ہوکر بار بار اس جملے کو دہراتا ھے
یورپ تو سو سال پہلے " معاہدہ لوزین " کی رو سے عثمانیوں کی ہر نشانی ختم کرچکا تھا
پھر یہ ترک عثمانیوں سے سو سال بعد بھی رشتہ توڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے
اردگان کی انتخابی مہم کا ایک مقبول نغمہ جو " مہر زین " نے پڑھا ھے
اس کا ایک شعر ھے
" کل ہمارے لئے ارطغرل ( عثمانی جد امجد ) تھا
آج ہمارے لئے اردگان ھے "
یہ ترکوں کی یورپ سے کیسی ضد ھے
کہ
ترک عثمانیوں کے بدلے پورے یورپ کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں
مادیت کے اس دور میں
یہ کیسا خسارے کا سودا ھے
یورپ کو یہی پریشانی ھے
کہ
عثمانی ہی ترکوں کی ضد کیوں ہیں
عدنان میندریس سے لے کر اردگان تک
بار بار ترک قوم عثمانیوں کے نام پر ووٹ دیتی نظر آتی ھے
فرانس میں دو دن پہلے پری پول ووٹنگ میں ایک شخص نے اردگان کو ووٹ دیتے ہوئے ساتھ پرچی پر لکھا
کہ
اردگان!
ہم آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کی طرح تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے "
یہ تاریخ کا کیسا ستم ھے
کہ
خلافت کے خاتمے کے
100 سال بعد عثمانی پورے طمطراق سے واپس آنے کو ہیں
یہ کیسا الیکشن ھے
کہ
دس، دس سال کے بچے بھی ترک انقلابی شاعر
" محمد عاکف ارسوئے "
کی انقلابی اسلامی نظمیں پڑھتے جھومتے نظر آتے ہیں
یہ کیسا خون ھے
جو سو سال بعد بھی رنگ بدلنے پر آمادہ نہیں ھے
مغربی انتخابی جائزوں میں بھی اردگان کو واضح اکثریت کے اشارے مل رہے ہیں
بشکریہ : محمد طیب سکھیرا24 جون کو ترکی کی تاریخ کا سب سے بڑا الیکشن ہونے جارہا ھے
یہ اس لحاظ سے اہم ھے
کہ
اس الیکشن میں جیتنے والا 2023 تک حکمران رہے گا
یاد رہے
کہ
2023 ہی وہ سال ھے
جب ترکی اپنا صد سالہ جشن منارہا ہوگا
یہی وہ سال ہوگا
جب 100 سال پورے ہونے پر
" معاہدہ لوزین " ختم ہوجائے گا
اور
ترکی متحدہ یورپی افواج کی عائد کردہ سخت شرائط سے باہر نکل آئے گا
جس کی رو سے ترکی اپنی زمین میں تیل و گیس کیلئے کھدائی نہیں کرسکتا
اور
اپنی باسفورس جیسی اہم عالمی بحری تجارتی گزرگاہ پر کسی بھی قسم کا ٹیکس نہیں لے سکتا
معاہدہ لوزین ترک قوم پر مزید بے شمار پابندیاں بھی عائد کرتا ھے
جس کا بنیادی مقصد ترکی کو معاشی ترقی سے روکنا اور بے بس کردینا ھے
معاہدہ لوزین پر پھر کسی نشست میں بات کریں گے
سردست حالیہ ترکی الیکشن پر بات کرتے ہیں
ترکی پارلیمنٹ میں کل 600 ارکان ہوتے ہیں
جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں
ترکی کے قانون کی رو سے وہی پارٹی پارلیمنٹ میں داخل ہوسکتی ھے
جو کل انتخابی ووٹوں کا دس فیصد حاصل کرے
یوں
اگر کوئی رکن انفرادی طور سے جیت بھی جائے
تو اس کی جیت کا انحصار پارٹی کے کل ووٹوں کے دس فیصد ووٹ حاصل کرنے پر ہوتا ھے
حالیہ ترکی الیکشن اس لحاظ سے اہم ھے
کہ
اس میں بڑے ووٹر ٹرن آؤٹ کی توقع کی جارہی ھے
ترکی انتخابی تاریخ میں ووٹر ٹرن آؤٹ کو دیکھا جائے
تو سب سے زیادہ ووٹر 1988 میں باہر نکلا تھا
جس کا تناسب %86 فیصد ھے
یہ ترکی کی تاریخ کا سب سے زیادہ ووٹر ٹرن آؤٹ تھا
حالیہ انتخابات میں بھی بڑے ٹرن آؤٹ کی توقع کی جارہی ھے
کیونکہ
صدارتی نظام کے بعد یہ پہلا الیکشن ھے
جب ترک قوم اپنے صدر اور ارکان پارلیمنٹ کا ایک ہی دن انتخاب کرے گی
ہر شخص دو ووٹ ڈالے گا
صدر کیلئے ووٹ
اور
اپنے رکن پارلیمنٹ کیلئے ووٹ
پورا یورپ سانس روکے ہوئے اس الیکشن پر نظریں جمائے ہوئے ہیں
فرانس ، جرمنی جیسے بڑے ممالک سے لے کر آسٹریا جیسے چھوٹے سے ملک تک میں اس وقت سب سے اہم مسئلہ ترکی کا الیکشن ھے
تمام تر مغربی میڈیا پر ترکی الیکشن چھایا نظر آتا ھے
انتخابات کا جائزہ لینے پر مامور تمام یورپی و امریکی تنظیمیں استنبول میں خیمے گاڑچکی ہیں
روز سروے کروائے جارہے ہیں
انتخابی رپورٹیں اپنے اپنے ممالک کو ارسال کی جارہی ہیں
میڈیائی تجزیوں سے رائے عامہ کا ذہن بنایا جارہا ھے
خوف سمیت ہربہ استعمال کیا جارہا ھے
واشنگٹن سے تل ابیب
اور
برلن سے ریاض تلک ایک بے چینی سی بے چینی ھے
یہ اردگان کا خوف ھے
یہ اسلام پسندوں کی پھر سے کامیابی کا خوف ھے
اب تو اردگان کے پاؤں میں پارلیمانی بیڑیاں بھی نہیں ہیں
کہ
صدارتی نظام آچکا ھے
جس میں اردگان ہی اختیارات کا مرجع ھے
اسلئے
دلچسپی میں مزید اضافہ ہوچکا ھے
صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں
کسی بھی صدارتی امیدوار کو جیتنے کیلئے کل ووٹوں کا %50 حاصل کرنا ضروری ہے
ورنہ
صدارتی الیکشن کا دوسرا دور منعقد ہوگا
جو پہلے دو قریب ترین حریفوں کے درمیان ہوگا
سارا یورپ دوسرے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی پیشنگوئیاں کررہا ھے
کہ
اردگان کو دوسرے مرحلے پر چت کرنے کا منصوبہ بنایا جاچکا ھے
آئیے صدارتی الیکشن اور امیدواروں پر ایک نظر ڈالتے ہیں
1۔۔۔
سب سے اہم صدارتی امیدوار
رجب طیب اردگان ہیں
جناب رجب طیب اردگان
ایم ایچ پی یعنی ملی حرکت پارٹی
نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی
اور
حکمران " آق " پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہیں
یہ تین جماعتیں مل کر " اتحاد جمہور " کے نام سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں
اردگان کی وجہ شہرت
ان کا عوامی مزاج ،
ترکی کی مضبوط معاشی ترقی
اور
عظیم ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل کرنا ھے
اب تک اردگان نے تعمیراتی اعتبار سے بے شمار بڑے منصوبے مکمل کروائے ہیں
ان میں شہروں اور صوبوں کو ملانے والی چوبیس ہزار کلومیٹر رابطہ سڑکیں جدید اور دو طرفہ بنادی گئی ہیں
جس سے ٹریفک کا بہت بڑا مسئلہ حل ہوگیا ھے
اور
حادثات کی شرح بھی بہت حد تک کم ہوگئی ھے
مزید کئی ہزار کلومیٹر رابطہ سڑکوں کو کھلا کرنے اور دو طرفہ کرنے کا کام تیزی سے جاری ھے
اس کے ساتھ ساتھ
استنبول شہر میں یورپ اور ایشیاء کے دونوں حصوں کو باہم ملانے کیلئے نہ صرف نیا پل بنایا گیا ھے
بلکہ
باسفورس کے سمندر کے نیچے جدید سرنگ بھی بنائی گئی ھے
جس میں سے گاڑیاں اور ٹرک ہی نہیں
بلکہ
ریل کاریں بھی گزر کر آر پار جاسکتی ہیں
اسی طرح
استنبول کے شمال میں اگلے سو سال کی ضروریات کے مطابق ایک عظیم الشان ہوائی اڈہ اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ھے
حالیہ الیکشن میں اردگان نے اعلان کیا ھے
کہ
الیکشن میں کامیابی کے بعد
آبنائے فاسفورس پر بڑھتے ہوئے تجارتی جہازوں کے بوجھ کو بھی کم کیا جائے گا
اور
استنبول میں قرہ بورون کے ساحلی علاقے میں دو سمندروں کو ملانے کیلئے ایک نئی رابطہ نہر تعمیر کی جائے گی
جو سویز کینال اور پانامہ کینال کی طرز پر
بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے ملائے گی
یوں ایک نیا تجارتی راستہ وجود میں آئے گا
جو ترک بحری تجارت کو بلندیوں پر لے جائے گا
اس منصوبے پر بیسیوں ارب ڈالر لاگت آنے کا امکان ھے
اس سے آبنائے فاسفورس پر تجارتی جہازوں کا بوجھ کم ہوجائے گا
جو اس وقت اس حد تک بڑھ چکا ھے
کہ
بسا اوقات ایک جہاز کو گزرنے کیلئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ھے
اردگان نے جوہری طاقت حاصل کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ھے
ترکی میں اسلام پسندی کی لہر کو دیکھا جائے
تو
1923 کے بعد ترکی میں اسلامائزیشن اپنے نکتہ عروج کو چھورہی ھے
آق پارٹی کی انتخابی مہم میں ایسی اسلامی علامات اور خلافت کے نعرے بکثرت نظر آرہے ہیں
سچ پوچھئے تو
یورپ اسی اسلامی لہر سے بہت پریشان ھے
ایک فرانسیسی ٹی وی کی رپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا
رپورٹر اردگان کی " آق پارٹی " کی انتخابی مہم میں کارکنان کے سٹال پر جاتا ھے
جہاں ٹوپیاں رکھی ہیں
وہ ایک ٹوپی اٹھا کر کیمرے کے سامنے کرتا ھے
جس پر یہ لکھا ھے
" ہم عظیم عثمانیوں کے پوتے ہیں "
فرانسیسی رپورٹر حیران ہوکر بار بار اس جملے کو دہراتا ھے
یورپ تو سو سال پہلے " معاہدہ لوزین " کی رو سے عثمانیوں کی ہر نشانی ختم کرچکا تھا
پھر یہ ترک عثمانیوں سے سو سال بعد بھی رشتہ توڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے
اردگان کی انتخابی مہم کا ایک مقبول نغمہ جو " مہر زین " نے پڑھا ھے
اس کا ایک شعر ھے
" کل ہمارے لئے ارطغرل ( عثمانی جد امجد ) تھا
آج ہمارے لئے اردگان ھے "
یہ ترکوں کی یورپ سے کیسی ضد ھے
کہ
ترک عثمانیوں کے بدلے پورے یورپ کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں
مادیت کے اس دور میں
یہ کیسا خسارے کا سودا ھے
یورپ کو یہی پریشانی ھے
کہ
عثمانی ہی ترکوں کی ضد کیوں ہیں
عدنان میندریس سے لے کر اردگان تک
بار بار ترک قوم عثمانیوں کے نام پر ووٹ دیتی نظر آتی ھے
فرانس میں دو دن پہلے پری پول ووٹنگ میں ایک شخص نے اردگان کو ووٹ دیتے ہوئے ساتھ پرچی پر لکھا
کہ
اردگان!
ہم آخری عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کی طرح تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے "
یہ تاریخ کا کیسا ستم ھے
کہ
خلافت کے خاتمے کے
100 سال بعد عثمانی پورے طمطراق سے واپس آنے کو ہیں
یہ کیسا الیکشن ھے
کہ
دس، دس سال کے بچے بھی ترک انقلابی شاعر
" محمد عاکف ارسوئے "
کی انقلابی اسلامی نظمیں پڑھتے جھومتے نظر آتے ہیں
یہ کیسا خون ھے
جو سو سال بعد بھی رنگ بدلنے پر آمادہ نہیں ھے
مغربی انتخابی جائزوں میں بھی اردگان کو واضح اکثریت کے اشارے مل رہے ہیں
Comments
Post a Comment